7/07/2019

دل میں کوئی فتور ہے

دِل میں کوئی فتور ہے
اُس کے جو ہم سے دور ہے
نظریں جھکائے بیٹھے ہو
کچھ ماجرا ضرور ہے
میں تم پہ مر مٹا ہوں کیا
یہ بھی مِرا قصور ہے؟
قرآں میں ہی چُھپی ہوئی
توریت ہے زبور ہے
میں تو چلو دیوانہ ہوں
پر تُو تو باشعور ہے
پہنچا ہوں لودھراں ابھی
ملتان کتنا دُور ہے؟
ہو جانے دے چراغ گُل
تیرے بدن میں نُور ہے
جاں وار دیں گے آپ پر
کیا حکم یا حضور ہے؟
اُن سے ملے تو یوں لگا
کہ جیسے کوئی حُور ہے
خمرِ نگاہِ یار میں
کیسا بھلا سُرور ہے
جھوٹے بہانے کرنے میں
حاصل تُجھے عبور ہے
اس دل کی تم سے کیا کہوں
زخموں سے چُور چُور ہے
اِسرار ہے __ اِن آنکھوں میں
اب رنگ ہے نہ نور ہے
(شہریار جمیل)

No comments:

Post a Comment