اگر ایک جماعت کے سو میں سے دو، چار یا پانچ بچے امتحان میں ناکام ہو جائیں، تو سمجھا جائے گا وہ طلباء تھے ہی نکمے۔
مگر اگر اسی کلاس کے نوے بچے فیل ہو جائیں تو سب کی انگلیاں استاد کی طرف اٹھیں کہ اس نے اپنی ذمہ داری بخوبی نہیں نبھائی۔
اب ایسے ہی مسلمان قوم کے بارے میں سوچیں۔
اگر عالمِ اسلام کے ایک یا دو ممالک شکارِ زبوں حالی ہوتے تو اسکی وجہ وہاں کی عوام و حکومت کو سمجھا جاتا۔
مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
تمام عالم میں مسلمان انفرادی و اجتماعی طور پہ بدنام ہیں۔
ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے گا؟
ناموسِ رسالت ہر مسلمان کے ہاتھ میں ہے اور جب تک ہم خود کو درست نہیں کر لیتے، ہم تحفظِ ناموس رسالت کی آڑ اپنے ہی گھروں میں آگ لگاتے رہیں گے۔
No comments:
Post a Comment