ہم کو آرام چاہیئے ہے
اور بڑا نام چاہیئے ہے
اُن کی آغوش میں کسی شب
اپنا انجام چاہیئے ہے
تیری عِترت کو جو بچا لے
ایسا اِلزام چاہیئے ہے
ہاتھ میں ہاتھ ہو تمہارا
ایسی اک شام چاہیئے ہے
اپنی تکلیف کا تماشہ
اب سرِ عام چاہیئے ہے
یار جو ہاتھ سے پلائے
بس وہی جام چاہیئے ہے
No comments:
Post a Comment